Men's debt (انسانوں کا قرض)
عید کے روز بھی میں یہیں کہیں ایک غیر معروف کونے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بابا آگیا، وہ پرانی وضع کا نیم فقیر یا نیم صوفی قسم کا تھا۔ وہ میرے پاس مخصوص قسم کے شعری جملے جو ہم بچپن میں سنا کرتے تھے (سنانے لگا)
میرے پاس ایک پانچ روپے کا نوٹ تھا وہ میںنے اس کو دیا کیونکہ میرے بچے مجھے کہا کرتے ہیں کہ ابو اب آپ کسی فقیر کو پانچ روپے سے کم نہ دیجیئے گا کیونکہ وہ ناراض ہوتے ہیں۔ اس شخص نے خوش ہو کے وہ نوٹ لے لیا اور کہنے لگا کہ تو بڑا پریشان سا ہے اور یہاں اکیلا بیٹھا ہوا ہے کیا بات ہے؟
Great Scholar Ashfaq Ahmed Zaavia 10
میںنے کہا کہ مجھ پر بڑا قرض ہے اور میں کوشش کرتا ہوں کہ اس سے کسی طرح باہر نکل جاؤں۔ یہی میری پریشانی کا باعث ہے۔ اس نے ہلکا سا قہقہ لگایا اور کہا “شکر کر اللہ کا اور خوش ہو کہ تیرے اوپر کاغذوں، روپوں اور ڈالروں کا قرض ہے، اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو اور ہر وقت جھک کر رہا کر کہ تیرے اوپر انسانوں کا قرض نہیں ہے، تم نے کسی کو انسان نہیں لوٹانے۔“
میں نے کہا بابا میں تیری بات نہیں سمجھا۔ کہنے لگا کہ شکر کر تو نے کوئی قتل نہیں کیۓ، کسی انسان کی جان نہیںلی۔ اگر خدانخواستہ تیرے اوپر جانوں کا بوجھ ہوتا تو تُو اسے کیسے لوٹاتا اور تیرے ملک والے بھی اللہ کا شکر ادا کریں کہ ان کے اوپر جانوںکا بوجھ نہیں ہے کیونکہ اللہ قرآن میںفرماتا ہے کہ اگر تم نے ایک شخص کو ناحق قتل کیا تو گویا تم نے پوری انسانیت کو قتل کردیا۔ میں نے اس سے کہا کہ الحمد للہ میرے اوپر ایسا کوئی بوجھ نہیںہے۔ اس نے کہا کہ تم اپنے پڑوسیوںکو دیکھو 73 ہزار بے گناہ کشمیریوں کے قتل کا بوجھ (اب یہ تعداد 75 ہزار سے بھی زائد ہو چکی ہے) ان کی گردن پر ہے کہ وہ کیسے لوٹائیں گے۔ کتنی بھی کوشش کر لیں، جدھر بھی مرضی بھاگ لیں وہ 73 ہزار آدمی جن کے وہ مقروض ہیں وہ کیسے آدمی لوٹائیں گے۔ تمھارا تو روپوں کا قرض ہے کسی نہ کسی صورت لوٹایا جا سکے گا۔ پھر ان کو دیکھو انہوں نے ایک لاکھ پندرہ ہزار سکھوںکو Blue Star کے Process میںقتل کیا۔ وہ ان کی ماؤں کو اور بہنوں کو ان کے بیٹے اور بھائی کیسے لوٹا سکیںگے؟ ان سے اگر وہ مانگنے والا(خدا تعالٰی) آگیا کہ میرے انسان واپس کرو تو وہ کہاںسے دیںگے۔ وہ کہنے لگا تمہیں پتہ ہے میںتو جانتا نہیںکہ “ایتھوں دور سمندر وچ کوئی پنڈ اے۔“ کہنے لگا وہاں پر دو جگہوں پر بم پھینک کر لاکھوں انسانوں کو ہلاک کر دیا۔ میں نے کہا کہ بابا ان شہروں کو “ہیروشیما“ اور “ناگاساکی“ کہتے ہیں۔ اب وہ کس طرحلاکھوں بندے لوٹائیں گے۔ وہ بابا “ٹپوسی“ مار کر چلتا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا “میںنے سنا ہے کہ جب امریکہ آباد ہوا تو وہاں پر ایک قوم آباد تھی جسے Red Indian کہتے تھے۔ وہ قوم اب ساری کی ساری ختم ہو گئی ہے اور اب اگر کوئی کھاتے والا اپنا رجسٹر لے کر آگیا اور اس نے موجودہ قوم کو بڑی طاقتور اور سیانی اور ماہر قوم ہے اس سے کہا کہ مجھے وہ آدمی واپس کرو تم نے انہیں ناحق مارا ہے اور کیوںمارا ہے؟جواب دو اور بندے واپس کرو تو وہ کیا کریںگے؟ مجھے کہنے لگا کہ تم کونے میںلگ کے پریشان بیٹھے ہو حالانکہ تمہیںخوش ہونا چاہیئے اور تمہاری قوم کے لوگوںکو خوش ہونا چاہیئے کہ چلو تم قتل کر دئے گۓ لیکن قاتلوںمیں سے نہیںہو۔ اس نے کہا کہ میں تو خوشی سے ناچتا ہوں کہ الحمدللہ مسلمان امّہ پر یہ بوجھ نہیںہے۔ مسلمان بے وقوف اور مقتول ہیں، قاتل نہیں ہیں۔ یہ پتھر لے کر مدٍِّمقابل کو مارتے ہیں اور پتھروں سے ان کے (اسرائیل) ٹینکوں کو نشانہ بناتے ہیں اور ان کے نیچے کچلے جاتے ہیں۔ جان سے جاتے ہیں لیکن ان ظالموں میں سے نہیں ہیں جو انسانوںکا ناحق خون کرتے ہیں اور پوری کائنات اور معاشرے کو قتل کر دیتے ہیں۔ اس کی بات سن کر میںخوشی سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس روز سے اب تک میں کافی خوش ہوںکہ الحمدللہ میری ذات کے اوپر اور میری قوم پر خون یا آدمی لوٹانے کا بوجھ نہیں ہے اور انشاء اللہ وہ وقت بھی قریب ہے کہ ہم ڈھیر سارا قرضہ لوٹا سکیںگے اور شکر ہے کہ ہمیں زندہ جیتے جاگتے انسان نہیںواپس کرنے ہیں۔ انسانوںکو لوٹانے کے قرض دار ایسے بھی ہیںجو لمبی اڑانیںبھر بھر کر سکاٹ لینڈ پر جو نہ پیسے والا ہے اور نہ ان کا کوئی قصور تھا ان پر بمباری کرتے رہے۔ ان سے تو ہمارا قرضاچھا ہے۔
اشفاق احمد
0 comments:
Post a Comment